in ,

وہ پرستان جہاں انسان بسا کرتے ہیں

    حفیظ اللہ وانی

ھم سب بخوبی جانتے ہیں کہ خالق اکبر نے اس کاینات کی تخلیق فرمائی اور بہت خوب فرمائی۔ ارشاد باری ھے۔
       الذی احسن کل شیء خلقہ۔
یعنی وہی وہ ذات ھے جس نے ہر چیز جو بنائی۔خوب بنائی۔ خوبصورت بنائی۔
           بیشک۔ آپ کاینات کے اندر جس شے پر بھی نظر دوڑاو گے۔ آپکو ایک وقار۔ایک میزان اور ایک خوبصورتی نظر آیگی۔یہی وہ مقناطیسی کشش ھے جس کی بنا پہ دنیا میں لاکھوں۔ کروڑوں لوگ سیاح بن کر اس خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے لئے دنیا بھر کا چکر لگاتے ہیں۔ اور بہت سارے مقامات اُسی قدرت کی عطا کردہ حسن کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پہ مشہور ومعروف ہیں۔ اسی پس منظر میں۔ میں آپکو ایک ایسی وادی سے متعارف کروانے جا رہا ہوں جس کی خوبصورتی اور دلفریب مناظر قدرت کی کاریگری اور کرشمہ سازی کی Physical تفسیر ھے۔
         یہ ایک چھوٹی سی وادی ھے جس کی لمبائی تقریباً 25 سے 30 کلومیٹر اور چوڑائی 1 تا 2 کلومیٹر سے زیادہ نہیں۔ اس وادی کے متصل مشرق میں زانسکار۔ مغرب میں ضلع کشتواڑ۔ شمال میں مڑوا اور جنوب میں ضلع اننت ناگ آتا ھے۔ اس وادی کے بیچوں بیچ دریائے ماریو سدر مشرق سے شمال کی جانب بہتی ھے جو اسے برابر دو حصوں میں بانٹتی ھے۔ یہ وادی سطح سمندر سے تقریباً 7500 فیٹ کی بلندی پہ واقع ہونے کی وجہ سے یہاں موسم سرما میں شدید برف باری ہوتی ھےاور اس کی خوبصورتی کو دوبالا کرتی ھے۔
           موسم گرما میں اس وادی کی خوبصورتی اپنی عروج پہ ہوتی ھے۔   روح کو جلا بخشنے والی سدا بہار جنگلات۔ نظروں کو خیرہ کرنے والی سرسبز و شاداب لہلہاتے کھیت کھلیان۔ جسم ؤ جان کو تازگی بخشنے والی ہر قسم کی کثافت و آلودگی سے پاک و صاف آب و ہوا۔ خالق اکبر کی شان کبریائی بیان کرنے والے بلند وبالا دیو قامت پہاڑ ۔ جو اس وادی کو بیرون دنیا سے کاٹ دیتی ھے۔ تھکے ہارے مسافروں کی بھوک و پیاس کو مٹا دینے والی شفاف روح افزا دریا ؤ پانی۔ بلندی سے گرنے والے آبشار۔ سرسبز چراگاہیں۔ سریلی گیت گاتی ہوئی چشموں اور جھرنوں کے بہتے ہوئے پانی جس میں آس پاس کے پیڑ پودے اور گل کی ٹہنیاں جھک جھک کر اپنا خوبصورت چہرہ دیکھتی ہیں اور اس منظر کو دیکھ کر بے ساختہ زبان پہ شاعر مشرق کی وہ شعر آجاتی ھے۔
پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے   حسین     کوئی     آئینہ دیکھتا     ہو۔
    المختصر مان لو کہ کوئی پرستان ھے پرستان۔
      مگر وہ پرستان جہاں انسان بسا کرتے ہیں۔   2011 کی مردم شُماری کے مطابق یہاں کی آبادی تقریباً  8000 ہزار تھی جو اب ایک محتاط اندازے کے مطابق 12000 کے قریب پہنچ چکی ھے۔
      انسانی فطرت کا تقاضا ھے کہ جب وہ کسی مصنوعی شے کو بار بار دیکھتا ھے تو اُکتاہٹ محسوس کرتی ھے ۔ لیکن جہاں تک قدرتی مناظر کا تعلق ھے یہاں معاملہ بلکل برعکس ھے۔
صبح ہوتی ھے شام ہوتی ھے
عمر یوں  ہی تمام  ہوتی ھے۔
     کے مصداق میری زندگی کی تیس (30) بہاریں بھی ماضی کی نظر ہو گیں اور مسلسل پچھلے تین دہائیوں سے میں اس وادی کی خوبصورتی اور دلفریب مناظر کا نظارہ کرتے آرہا ہوں۔ لیکن کیا کریں یہاں۔
    ” دل ھے کہ مانتا نہیں اور یہ دل مانگے More ” کا سا معاملہ ھے ۔  جی ہاں۔  جی بھرتا ہی نہیں۔
          مزید اس پہ یہاں کا سکوت جس پہ تقریر بھی فدا ھے۔ خلوت جس سے جلوت بھی شرما ئے ۔ سادگی جس میں کوئی ریاء نہیں۔ مہمان نوازی جس کے پیچھے کوئی خودغرضی نہیں۔ ملنساری جس کی کوئی مثال نہیں۔ میٹروپولیٹن سٹیز کے ہنگامہ خیز زندگی سے ناآشنا روایات جو روح کو راحت اور ذہن کو سکون فراہم کرتی ھے۔ کبھی کبھار تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ھے کہ شاعر مشرق علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے نظم   ” ایک آرزو ” میں جس دیس کی آرزو کی ھے۔ شاید یہ وادی اسی آرزو کی تکمیل ھے۔
      علاوہ ازیں اس وادی کو حکام کی جانب سے ” Zero Disturbance Zone ” زمرے میں شامل کرنا اس بات کی کھلی دلیل ھے کہ یہاں کے لوگ امن و آشتی کے پیروکار اور علمبردار ہیں۔
         مگر یہ ایک پہلو ھے۔ اب اس کا دوسرا پہلو بھی سن لیجیے۔
       جہاں ایک طرف موسم گرما میں اس وادی کی جوبن اپنی عروج پہ ہوتی ھے۔ وہیں دوسری طرف موسم سرما میں شدید برف باری کی وجہ سے یہاں بہت سارے مشکلات اور پریشانیاں سر اٹھانے لگتے ہیں۔ شدید برف باری کی وجہ سے اس وادی کا بیرون دنیا سے عموماً اور ضلع ہیڈکوارٹر سے خصوصاً تقریباً 5 ماہ تک کے لئے زمینی رابطے کا منقطع ہو جانا۔ بنیادی سہولیات زندگی کی عدم دستیابی۔ غذائی اجناس اور ادویات کی قلّت۔ مریضوں۔ غریبوں اور ناداروں کی خدمات کے لئےمفت اور معقول انتظام کا فقدان۔ اعلٰی اور معیاری نظام تعلیم کا فقدان وغیرہ وغیرہ قابل ذکر ھے-
        یہ بھی خصوصاً آپ کے لئے بتاتا چلوں کہ جہاں دنیا ایک طرف ستاروں اور کہکشاؤں پہ کمند ڈال رہی ھے۔ وہیں دوسری طرف یہاں کے باشندے    ” بجلی  “جیسی بنیادی۔ لاینفعک اور اہم سہولت سے یکسر محروم ہیں۔ بجلی کس بلا کا نام ھے۔ان کے لئے یہ۔
     ” اک معمّہ ھے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ” ۔
طوالت کے خوف سے اختصار سے کام لے رہا ہوں۔ورنہ
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھے کہ    مدّعا   کیا ھے۔
جہاں تک ہمارے سیاسی آقاؤں کا تعلق ھے۔   استغفراللہ ۔۔۔ میری کیا مجال کہ ان کے خلاف کچھ کہوں۔حضور ۔ یہ تو ان کی ہی مہربانی۔ کرم اور نظر عنایت ھے کہ ہمارے غریب۔لاچار اور بے سہارا عوام الناس کی حالت زار اس حد تک پہنچ چکی ھےکہ شرحِ آرزو کے لئے وہ غیروں کے محتاج ہو چکے ہیں !!!     آہ
پیامبر جو میسر  ہوا تو خوب  ہوا
زبان غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے۔
لیکن میرے ہمنواو اور غریب واسیو مایوس ہونے کی بلکل ضرورت نہیں۔ ظلم ؤ ذیادتی۔ جوروجفا اور تاناشاہی کا دور عنقریب ختم ہونے والا ھے۔کیونکہ
سرخروئی کے اب آثار نظر آتے ہیں
نوجواں قوم کے بیدار نظر آتے ہیں۔
اور اے رہبرِ ناہنجار۔ تمہاری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کرنے والے ہیں۔
تو اِدھر اُدھر کی نہ بات کر
یہ بتا  کہ  قافلہ کیوں  لٹا
مجھے رہزنوں کا گلہ نہیں
تیری رہبری کا  سوال  ھے۔
میرا کام تو فقط آگاہ کرنا ھے۔۔ ” پھر نہ کہنا کہ مجھے خبر نہ ہوئی “
    محترم قارئین۔ انتظار کے لئے بہت بہت شکریہ۔ مناسب ھیکہ اب اس وادی مرجان کا نام بھی بتادوں جسکی داستان الم لکھنے سے میرا قلم قاصر ھے۔
             جناب عرض ھے۔
میں نے جس دیس میں گزارا بچپن اپنا
سنگ   یاروں  کے  سنوارا   لڑکپن   اپنا۔
اسکی مٹی میں میسر ھے وہ خوشبو اب بھی
ماں کی  ممتا  نے  بنایا   جسے مسکن    اپنا۔
جسکی خرمن پہ ھے جوبن کی اجارہ داری
کھیت  کھلیان میں ہوتی ھے سدا پھلواری۔
آج  سرما  کی  سفیدی  میں  ھے گلشن اپنا
ہاں    وہی   یار۔۔۔۔     وہی۔۔۔۔۔ ”     واڑون ” اپنا۔
جی ہاں۔ آپ نے صحیح پہچانا۔ ضلع کشتواڑ کا دوردراز وادی۔
       ” وادی واڑون “

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Loading…

0

The sad plight of forestry graduates in J&K

‘Flyover from 90ft Road to Wayil, Ganderbal to come up soon’