in ,

زنسکار !دنیا کی بلندی پر زراعت کا کار

زراعت ٹائمز ڈیسک

ریاست جموںو کشمیر میں پہاڑوں کے بیچوں بیچ ایک ایسی وادی چھپی ہے جس کے بارے میں ریاست کے اندر اور ریاست سے باہر بہت کم جانکاری ہے ۔ یہ وہ ایک ایسی منفرد وادی ہے جو سمندر کی سطح سے 11 ہزار سے لے کر 23 ہزار فٹ کی
بلندیوں پر واقع ہے ۔ زنسکار کی وادی عزیم ہمالیائی اور زنسکار کے پہاڑی سلسلے کے درمیان واقع ہے ۔
زنسکار ریاست وہ ایسی وادی ہے جو جموں و کشمیر کے لائن آف کنٹرول کے دونوں خطوں میں پائی جاتی ہے ۔ جہاں ایک سمت میں زنسکار کا علاقہ جنوبی کشمیر سے شروع ہوتا ہے وہیں اس کا دوسرا سلسلہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے بلتستان علاقے میں اختتام پذیر ہوتا ہے ۔
زنسکار کی وادی اس لئے منفرد ہے کہ اگرچہ یہ سمندر کی سطح سے کافی اونچائی پر واقع ہے ، یہاں پر پودوں اور پرندوں کی ایک منفرد تنوع پائی جاتی ہے ۔ ایسا شائد اس لئے ہے کہ یہاں پر شدید ٹھنڈ اور برفباری ہونے کے باوجود دریاﺅں کا ایک ایسا جھال بچھا ہوا ہے کہ پودوں اور پرندوں کی حیات ممکن ہوگئی ہے ۔ زنسکار وادی دراصل 2 چھوٹی وادیوں پر مشتمل ہے ۔ اےک سٹوڑ ۔ڈوڈہ اور دوسری سارپ ۔ لگنک ۔ ان دونوں وادیوں کے بیچوں بیچ 2 چھوٹے دریا بہتے ہیں جن کا ملن بالآخر پدم کے قصبے کے پاس ہوتا ہے ۔ ان دو دریاﺅں کے ملن کے بعد یہ زنسکار کا دریا بنتا ہے اور بالآخر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہوکر سندھ دریا سے جا ملتا ہے ۔
زنسکار کی وادی میں اگرچہ ماضی میں رسمی طور پر نفی کے برابر کاشت کاری ہوا کرتی تھی البتہ پچھلی چند دہائیوں میں کئی تحقیقی اداروں نے اس علاقے میں زراعت کا کام کامیابی سے بڑے پیمانے پر شروع کیا ہے ۔
مقامی لوگوں کی محنت اور کاﺅشوں کے سبب آج زنسکارکا علاقہ کافی حد تک ایک بنیادی زرعی اشیاءمیں خود کفالت کر چکا ہے ۔ زنسکار کی وادی سال کے بیشتر اوقات میں برف سے ڈھکی رہتی ہے اور اس وادی میں رسائی صرف کرگل قصبے سے ایک
دشوار ترین راستے سے ہوتی ہے ۔
زنسکار کی وادی موسمی لہاظ سے لداخ اور کشمیر خطوں کے بیچ ایک بفر کا کام انجام دیتی ہے ، جس کی بناءپر اس وادی میں شدید برفباری ہونے کے باوجود گرما کے اکثر مہینوں میں خشکی طاری رہتی ہے ۔ شائد اسی بناءپر زنسکار کی وادی میں بارشیں بہت کم ہوتی ہےں ۔
زنسکار کے بیچوں بیچ جو دریا بہتے ہیں وہ لگ بھگ سو فیصدی آس پاس کی پہاڑیوں میں جمی برف کے پگلتے پانی سے پُر
ہوتے ہیں اور پھر ان ہی دریاﺅں کے پانی سے اس وادی میں جو کاشت کاری ہوتی ہے سیراب ہوتی ہے ۔
زنسکار کے لوگوں کیلئے جنوری اور فروری کے مہینے خاص کر بے حد مشکلات کے باعث ہوتے ہیں ۔ ان دو مہینوں میں زنسکار
کی وادی تمام دنیا سے کٹ کر رہ جاتی ہے ۔ چونکہ ان مہینوں میں پادم اور کرگل کے بیچ ٹرانسپورٹ کی نقل و حرکت ناممکن ہوا کرتی ہے ، اس لئے یہاں کے لوگ دوسرے مہینوں میں رسد اور دوسری ضروری اشیاءذخیرہ کیا کرتی ہے ۔
سرما کے مہینوں میں زنسکار کے لوگ ، ٹرانسپورٹ کی سہولیات نہ ہونے کے سبب ، دشوار ترین راستوں اور ےخ بستہ دریاﺅں کو پار کرکے پادم اور کرگل کے درمیان پیدل سفر کرتے ہیں ۔ ان تمام مشکلات کے باعث اس وقت کافی کاﺅشیں ہورہی ہیں کہ زنسکار کے علاقے کو کھانے پینے کی بنیادی اشیاءمیں خود انحصار کیا جائے ۔ البتہ ایسی کاﺅشیں آسان نہیں ہیں کیونکہ اس
علاقے میں اب تعلیم عام ہونے کے سبب لوگ اب کاشتکاری کے بجائے ملازمتوں کی طرف زیادہ راغب ہونے لگے ہیں ۔
چونکہ زنسکار کی وادی زیادہ تر نیم صحرائی علاقوں پر مشتمل ہے اس لئے اس علاقے میں زراعت کو بڑھاوا دینے کے زیادہ مواقعے نہیں ہیں ۔ البتہ کچھ ایسے زمینی علاقوں میں جو اس وادی کے دریاﺅں کے پاس ہیں کاشتکاری ہونے لگی ہے ۔
زنسکار کے علاقے میں الپائن اور ٹنڈرا پرجاتیوں کی جڑی بوٹیاں عام ہیں جو یہاں کے وسیع ترین مرغزاروں میں پھیلی ہوئی ہیں ۔
جہاں تک فصلوں کا تعلق ہے ، اس علاقے میں آلو ، جو اور دالیں اگائے جاتی ہیں ۔
جہاں تک پالتو جانوروں کا تعلق ہے ، زنسکار کے لوگ صدیوں سے یاک ، بھیڑ ، گھوڑے اور جنگلی کتوں کو پالتے ہیں ۔ اس علاقے میں مرموز ، بھیڑیے ، برف چیتے جیسے جنگلی جانور بھی پائے جاتے ہیں ۔
زنسکار کی کل آبادی لگ بھگ 20 ہزار کے قریب ہے اور یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش یا تو کھیتی باڑی ہے ، یا مویشیوں کو
پالنا ہے ۔
حالانکہ 4 ہزار میٹر کی بلندی پر اس علاقے میں کھیتی باڑی ممکن نہیں ہے البتہ نچلے علاقوں میں آبپاشی کی سہولیات فراہم
ہونے کے سبب اب یہاں کاشتکاری ممکن ہورہی ہے ۔ گرما کے موسم میں زنسکار کی خواتین اور بچے اکثر اپنے گھروں سے دور اپنے مویشیوں کے چرانے میں محو رہتے ہیں ۔
کرشی ودھیان کیندر (کے وی کے ) زنسکار اور کئی تحقیقی ادارے اس وقت اس علاقے میں زراعت کو فروغ دینے کے کام میں جٹے ہوئے ہیں ۔ کے وی کے زنسکار ، جو 12 ہزار 500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے ، اس دور دراز اور بلند علاقے میں زراعت کوفروغ دینے کےلئے کسانوں کے ساتھ قریبی طور پر کام کرتا ہے ۔ یہ سینٹر ، جو کہ 400 کنالوں پر پھیلا ہوا ہے ، اس علاقے میں پیاز، بند گوبی اور کئی دیگر اقسام کی نئی سبزیاں اگا رہا ہے ۔
کے وی کے زنسکار کے پروگرام کارڈی نیٹر ڈاکٹر رضوان رشید نے زراعت ٹائمز کو بتایا کہ یہ سینٹر اس وقت کئی طرح کے تحقیقی کاموں میں جڑا ہوا ہے ، جس میں میکسیکو سے حاصل شدہ گندھم ، بارلے اور آلو کی کچھ جدید اقسام اس علاقے میں اگانے کا کام بھی شامل ہے ۔
اس علاقے میں دوسرے کئی تحقیقی اداروں کی جانب سے عام لوگوں میں مویشیوں کے پالنے کے ضمن میں جدید طور طریقوں کی بیداری بھی کی جاتی ہے ۔ ندیم حسن ، جو یہاں کے ایک مویشی سائنسدان ہیں ، نے زراعت ٹائمز کو بتایا کہ وہ اس علاقے میں فصلوں اور مویشیوں کی پیداوار کو بڑھانے کے کام میں جٹے ہوئے ہیں ۔ ندیم کا ماننا ہے کہ اس علاقے میں زراعت کے شعبے کو بڑھاوا دینے کے خاصے مواقعے ہیں ۔
البتہ اس علاقے کی جغرافیائی مشکلات کے سبب یہاں پر اس شعبے میں سرمایہ کاری کیلئے اس وقت زیادہ مواقعے نہیں ہےں ۔
زراعت ٹائمز نے کرگل ہل ڈیولپمنٹ کونسل کے ان عہدیداروں سے بات کی جو اس خطے میں زراعت اور پشو پالن کے شعبوں کی دیکھ ریکھ کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کی توجہ اس خطے کے لوگوں میں زراعت کے شعبے میں خود کفالت حاصل کرنے پر مرکوز ہے ۔
زنسکار میں زراعت کو بڑھاوا دینے کے ضمن میں جو پیش رفت ہوئی ہے وہ ریاست کے دوسرے ایسے علاقوں کیلئے مثالی ثابت ہوسکتی ہے جہاں پر اشیاءخوردنی کے حوالے سے خود کفالت حاصل نہیں کی جاسکی ہے ۔ ایسے علاقوں میں گریز ، کرناہ ، اوڑی ، وڈون ، پونچھ ، راجوری ، ڈوڈہ ، کشتواڑ اور بھدرواہ جیسے علاقے شامل ہیں ۔ زراعت ٹائمز آنے والے دنوں میں ریاست کے ایسے علاقوں میں ، جو جغرافیائی لحاظ سے تنہائی کا شکار ہیں ، میں زراعت کو فروغ دینے کے حوالے سے تحقیقی مضامین شائع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ ان تحقیقی مضامین کا مقصد یہ ہوگا کہ ان علاقوں میں زراعت کے شعبے میں ہونے والے اچھے کام کو نہ صرف فروغ دیا جائے بلکہ جدید ٹےکنالوجی کو بھی رائج کرنے کے سلسلے میں پیش رفت کی جائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Loading…

0

پھلوں اور سبزیوں کیلئے سرکاری نرخ نامہ

جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد دسمبر 2020 میں جی ایس ٹی محصول کی وصولی سب سے زیادہ