in ,

ہمالیہ کی عدم یکسانیت کی وجہ سے بڑے پیمانے پر زلزلے آنے کا امکان: سائنس اور ٹیکنالوجی محکمه

زراعت ٹائمز نیوز

نئی دہلی : سائنسدانوں نے پتا لگایا ہے کہ ہمالیائی علاقے یکساں نہیں ہیں اور مختلف سمتوں میں ان کی فزیکل اور میکینکل خصوصیات بھی مختلف ہیں۔ یہ خصوصیت کرسٹلس میں موجود ہے جو اینی سوٹروپی کہلاتی ہے جس کے نتیجے میں ہمالیائی علاقوں میں بڑے زلزلے ا ٓسکتے ہیں۔

بھارت کےشمال مغربی علاقے میں گڑھوال اور ہماچل پردیش کا احاطہ کرتا ہے، وہاں بیسویں صدی کے آغاز سے درمیانہ درجے سے لے کر بڑی شدت کے چار تباہ کن زلزلے آچکے ہیں، یعنی 1905 کا کانگڑاکا زلزلہ، 1975 کا کنّور کا زلزلہ، 1991 کا اترکاشی کا زلزلہ اور 1999 کا چمولی کا زلزلہ۔ زلزلے کی ان سرگرمیوں سے سطح کے نیچے بڑے پیمانے پر تبدیلیوں اور کمزور زونوں کا پتہ چلتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ غیر مستحکم زونوں کے نیچے پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے۔

دہرہ دون کے واڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ہمالین جیولوجی (ڈبلیو آئی ایچ جی)، جو کہ بھارت سرکار کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے محکمے کے تحت ایک خود مختار ادارہ ہے اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کھڑگ پور (آئی آئی ٹی – کے جی پی)، کے تحقیق کاروں یعنی ڈبلیو آئی ایچ جی کے ڈاکٹر سشیل کمار، سائنسداں’جی‘،سبھاشمتا بسوال، تحقیق کار ڈبلیو آئی ایچ جی اینڈ ا ٓئی آئی ٹی –کے جی پی، ولیم موہنتی، پروفیسر، ا ٓئی آئی ٹی- کے جی پی اور مہیش پرساد پریجا، سابق تحقیق کار ، ڈبلیو آئی ایچ جی نے ڈبلیو آئی ایچ جی کے اعداد وشمار کواستعمال کیا اور یہ بتایا کہ شمال مغربی ہمالیائی علاقہ ایک خاص قسم کی خصوصیت رکھتا ہے، جو کرسٹلس میں موجود ہے۔

مغربی ہمالیے میں نصب کئے گئے زلزلے سے متعلق 20 براڈ بینڈ اسٹیشنوں کی طرف سے ریکارڈ کئے گئے 167 زلزلوں کی لہروں کے مشترکہ جائزے سے پتہ چلا ہے کہ اینی سو ٹروپی کا بڑا رول اس لیے ہے کیونکہ انڈو-یوراسیا ٹکراؤ ( جو پچاس ملین برسوں سے جاری ہے) کی وجہ سے پیدا ہونے وا لے دباؤ کی وجہ سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ یہ جائزہ 2020 میں رسالے ’لیتھوسفیئر(جی ایس اے)‘ میں شائع ہوا تھا۔

اشاعت کا لنک https://doi.org/10.2113/2020/8856812.

مزید تفصیلات کے لیے ڈاکٹر سشیل کمار، سائنسداں ’جی‘ اور ہیڈ جیوفزیکس، ڈبلیو آئی ایچ جی، دہرہ دون ([email protected]) سے رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Loading…

0

Water Chestnut Bakery: A Rs 500-crore business idea

خریف – 2021 سیزن کے دوران فرٹیلائزر کی دستیابی