in ,

وادی وڈون کے سانحات: آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟

حفیظلہ وانی

یاد ماضی عذاب ہے یا ربّ۔
ماہ فروری 2005 کی بات ہے۔راقم الحروف ان دنوں سری نگر میں پڑھائی کے حوالے سے مقیم تھا۔ 04 فروری کو تقریباً 30 افراد پہ مشتمل ایک قافلہ ضلع اننت ناگ سے واڑون کے لئے سطح سمندر سے تقریباً 12000 فیٹ بلند مقام پہاڑی سلسلہ  ” مر گن ٹاپ” سے روانہ ہوتا ہے۔ مر گن ٹاپ واحد راستہ ہے جو وادی واڑون کو ضلع اننت ناگ سے ملاتی ھے۔
اگلے روز یعنی 05 فروری کو تین افراد پہ مشتمل اساتذہ کا ایک چھوٹا سا قافلہ اسی دشواروہلاکت خیز راستے سے واڑون روانہ ہو تا ہے۔ پہلا قافلہ تو خیریت سے پہنچ جاتا ھے ۔۔۔  لیکن افسوس۔۔۔ دوسرا قافلہ نہ پہنچ سکا۔
مزید ستم ظریفی یہ کہ ان دنوں علاقے ھذا میں مواصلاتی نظام کا کوئی انتظام نہ تھا کہ بروقت انکی کوئی خبر ہی پہنچ سکتی۔اس طرح ڈھیڑ ماہ کے بعد مورخہ 23 اور 29 مارچ کو ان کی لاشوں کو برف کے نیچے سے نکالی گی۔
        ان لللہ وان الیہ راجعون۔
بس یہی مشیت ایزدی تھی۔ وہی وہ ہستی ہے جس کے اک اشارے پہ کسی کو زندگی تو کسی کو موت ملتی ہے ۔اسی حقیقت کو شاعر نے یوں بیان کیا۔
کسی کے اک اشارے سے کسی کو کیا نہ ملا
بشر  کو  زیست  ملی  موت  کو بہانہ  ملا۔
ہاں۔یہی ہمارا ایمان بھی ہے ۔ وہ دن یاد کر کے میرا زخم تازہ ہوتا ہے۔وہ میرے خاص اپنے تھے۔ ۔ ۔ دو حقیقی اور ایک چچیرا بھائی۔
یاد  ماضی  عذاب  ھے۔۔   یا ربّ
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔
تب سے تا دم تحریر تقریباً 17 سال بیت جاتا ھے۔   22 فروری 2022 کی رات۔۔۔ ایک اور حادثہ۔۔۔ جس کی تیز جھونکوں نے میرے دل کے 17سالہ پرانے زخم کوایک بار پھر کھرچ لیا۔
          وہ رات۔ جب ضلع اننت ناگ کا سرحدی علاقہ متی گاورن سے واڑون کے رہنے والے 6 افراد پہ مشتمل مزدوروں کا ایک قافلہ۔ جو غربت و افلاس کی مار سے مجبور ہوکر اپنے اہل وعیال کو دو وقت کی روٹی مہیا کرنے کی غرض سے۔ اپنے ماں باپ بیوی بچوں سے دور۔ بیرون ریاست ہماچل۔ پنجاب اور دیگر ریاستوں میں محنت مزدوری کرنے کے لئے گئے تھے۔  05 مہینے کے بعد وآپس اپنے گھر۔ اپنے ننھے ننھے بچوں کے لئے کچھ کپڑے وغیرہ لیکر۔ اپنی بوڑھی ماں اور پیاری بہنوں کے لئے اپنے خون پسینے کی کمائی سے چند آنچل ؤ و ردآیں خرید کر۔ دلوں میں دوبارہ اپنے پیاروں سے ملنے کی تمنّا یں لیکر۔ اسی پر خطر راستے سے نکلتا ھے جس سے ” مر گن ٹاپ” کہا جاتا ھے۔ جب وہ مرگن ٹاپ کے عین وسط میں 12000 فیٹ کی بلندی پہ پہنچ جاتا ھے تو اچانک شدید برف باری ہوتی ھے اور وہ 10 فیٹ برف کے بیچوں بیچ ۔ سنسان و ویران چوٹی پہ ۔ رگوں میں دوڑتی ہوئی لہو کو یخ بستہ کر دینے والی سردی میں۔ آسمان کو چھوتی ہوئی بلندی پہ بے سروسامان درماندہ ہو جاتے ہیں۔
           یہ خبر سنتے ہی پوری وادی میں صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ ہر طرف لوگ پریشان تھے۔ لاچار و مجبور اور بے بس عزیز واقارب آہ و زاری اور فریاد رسی کی دوہایی دے رہے تھے۔   لیکن کیا کیا جائے۔ قدرت کے سامنے سب بے بس۔ رابطے کا بھی کوئی انتظام نہ تھا کہ ان کی خیریت ہی پوچھ لیتے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا ہو گا۔ سوایے عجیب و غریب اور ڈراؤ نے خیالات کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔
               پوری وادی میں صداے احتجاج بلند ہونے لگا۔ ضلع اننت ناگ میں بھی نوجوانوں نے  D C آفس کے سامنے دھرنا دیا اور ان کی بازیابی کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کی درخواست کی۔ E Tv اردو پہ بھی اس خبر کو ترجیحی بنیادوں پہ نشر کیا گیا۔ ضلع ہیڈکوارٹر پہ اس حوالے سے کیا ہوا۔ ھمارے  DDC اور  BDC ممبران نے اس معاملے کو لیکر کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔کتنے احتجاج اور دھرنے دیئے۔ مقامی لوگوں کو اس حوالے سے کچھ بھی جانکاری نہیں۔ مقامی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ لیڈر حضرات پچھلے 05 مہینے سے لاپتہ ہیں۔لہذا ان 6  درماندہ مسافروں کے ساتھ ساتھ انکی بھی گمشدگی کی اطلاع دیتے ہیں اور بازیابی کی درخواست کرتے ہیں۔
              دوسری جانب ان درماندہ بہادر مسافروں نے ہمت نہیں ہاری۔قدرت انکی ہمت اور حوصلے کا امتحان لے رہا تھا۔ اور یہ مزدور 12000 فیٹ کی بلندی پہ۔چلچلاتی سردی میں اپنی موت وحیات کی جنگ لڑ رہے تھے۔     تین راتیں انہوں نے اسی طرح گزاریں۔۔۔
دو راتیں مرگن ٹاپ کے عین وسط میں ایک چھپریل کے اندر۔  اور ایک رات وہاں سے تقریباً 5 کلومیٹر دور بمقام۔ ” ناڑی بلن ” میں ایک خام چھپریل کے اندر۔
          المختصر ان فولاد دل بہادروں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے پیاروں سے ملنے کی آشا دل میں بسائے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا۔۔۔ چوتھے روز وہ پہاڑ کے اس سرے پہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جس پہ مسلسل پچھلے تین دنوں سے وادی کے لوگ اور پولیس اہلکار دوربین کے ذریعے سے اپنی نظریں عقاب کی طرح جمایی ہوی تھیں۔ لوگوں نے جب انہیں اس پہاڑ کی چوٹی سے ہولے ہولے اترتے ہوئے دیکھا۔ تو پھر کیا تھا کہ اک کہرام مچ گیا۔ فضاؤں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ لوگوں کے چہروں پہ خوشی کے آثار دور سے دیکھای دینے لگے۔ رشتہ دار اور عزیز واقارب جنکی آنکھیں مسلسل پچھلے تین دنوں سے خون کے آنسوں بہا رہیں تھیں آج ان کی آنکھوں سے خوشی کے آنسوں بہ رہے تھے۔ سب دیوانہ وار ایک دوسرے سے گلے لگ رہے تھے۔
             ہر سو مساجد کی میناروں سے انکی آمد کی خوش خبری گونج رہی تھی۔ ہر بستی سے فوج در فوج لوگ کھانا۔ کشمیری چائے وغیرہ لیکر انکی مدد کے لئے پہاڑ کی اس چوٹی کی جانب دوڑ پڑے جہاں سے وہ تھکے ہارے بوجھل قدموں سے آہستہ آہستہ آرہے تھے۔ اور اس طرح آخر پہ اس قافلہ سخت جان نے مقامی باشندوں۔پولیس اور آرمی کے تعاون سے مسلسل تین گھنٹے کی مشقت کے بعد فضل باری تعالیٰ سے اپنا قدم دوبارہ وادی واڑون میں رکھنے میں۔ اور 12000 کی بلندی پہ اپنا پرچم زندگی لہرانے میں اس بار کامیاب ہو گئے۔     الحمدللہ۔ اور یہ حقیقت ہمیشہ کی طرح آج بھی واضح ہےکہ
     خدا صرف ان لوگوں کی مدد کرتا ھے جو اپنی مدد آپ کرتا ھے۔
” God help those who help themselves “
                لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ سلسلہ کب تک چلتا رہےگا ۔ھ۔ہمیں اس پہ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں Tunnel کی صورت میں اس کا متبادل ڈھونڈنا پڑے گا تاکہ قیمتی جانوں کو زیاں ہونے سے بچایا جاسکے۔ ورنہ یاد رکھو آج میری باری تو کل آپ کی باری بھی ہوسکتی ہے۔ ھمارے سیاسی لیڈر حضرات اس حوالے سے کوئی ٹھوس اور مضبوط نمایندگی پیش کرنے میں اب تک بلکل قاصر ہیں اور دوراندیشی سے کام نہ لینے کی وجہ سے ہر محاذ پہ ناکام ونامراد ہو چکے ہیں۔
       اس معاملے میں اب پڑھے لکھے اور نوجوان طبقے کو مخلصانہ نیت کے ساتھ آگے آنے کی اشد ضرورت ھے۔یہ وقت کا تقاضا بھی ھے۔دنیا اپنی محنت سے چاند اور دوسرے سیاروں پہ بھی قدم جمانے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن ہم آج بھی تعلیم۔ بجلی۔ پانی۔ سڑک۔ مواصلاتی نظام جیسی بنیادی سہولیات کی معقول انتظام سے محروم ہیں۔
           سیاست ہر وقت نجاست ہرگز نہیں ہوتی۔ جو لوگ مطلقاً کہتے ہیں کہ سیاست نجاست ھے ۔میں ان سے اختلاف رکھتا ہوں۔سیاست کو اگر اچھی نیت کے ساتھ غریبوں اور حقداروں کی بھلائی۔ فایدے اور انصاف کی عملداری کے لئے استعمال کیا جائے تو یہ بھی عبادت ھے۔ لہذا اعلٰی کردار و گفتار اور تعلیم کے حامل نوجوانوں کو اپنی بقاء اور ناموس کی خاطر آگے آنے کی ضرورت ھے۔ آپس میں اتحاد واتفاق کے ساتھ اپنے غریب عوام الناس کے لئے کچھ اچھا کرنے کی ضرورت ھے۔ورنہ ہماری نااتفاقی۔ ناچاقی۔عاقبت نااندیشی اور کم ظرفی۔ خدا نہ کرے۔ ہمیں آج نہیں تو کل ضرور لے ڈوبے گی۔بقول شاعر
گھر کو لگی ہے آگ اسی گھر کے چراغ سے۔
آخر پہ حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی نصیحت بھی سن لیجیے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جسکو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔
اسے فقط ایک شعر نہ جانیے۔درحقیقت یہ سورہ الرعد آیت نمبر 11 کی ایک جز کا شاعرانہ ترجمہ ھے۔بالفاظ دیگر یہ فرمان الٰہی ھے۔
              اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم کب اس حکم خداوندی پہ عمل پیرا ہونے کے لئے خلوص نیت کے ساتھ تیار ہوتے ہیں۔  لیکن ایک بات طے ھےکہ جتنی جلدی ھم جدوجہد کے لئے کھڑے ہونگے اتنی ہی جلدی ہمیں اپنے معاشرے میں تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔
              اللہ تعالیٰ ھم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔۔۔    اللہ حافظ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Loading…

0

Indian delegation in Pakistan for annual Permanent Indus Commission meeting

Regularization of PDD daily wagers: RTI Movement hails LG’s decision