in ,

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

حفیظ اللہ۔مودود

انداز   بیاں گرچہ  بہت     شوخ نہیں ھے
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔
انسان۔ہاں میں انسان ہوں۔دنیا مجھے ” آدمی ” کے نام بھی پکارتی ہے۔اور  ” خاکی ” میرا کنیت ھے۔معلوم ھے کیوں ؟ چلو بتاتا ہوں امید ھیکہ آپ ساتھ دوگے۔
قرآن کریم کے اندر اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ھے۔
        ” ھم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا ” ( الحجر ۔26 ).
دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ھے
 ” ۔۔۔اللہ نے اس سے (یعنی آدم علیہ السلام کو ) مٹی سے پیدا کیا اور حکم دیا کہ ہو جا اور وہ ہو گیا “( آل عمران۔ 59 ).
ان آیات بینات کی روشنی میں مندرجہ ذیل باتیں سامنے آتیں ہیں۔
        1) انسان کی ابتدا مٹی سے ہوئی ھے۔
2) اللہ تعالیٰ نے انسان اول کو ” امر(یعنی حکم) ”   ” کن(ہو جا) ” سے پیدا کیا ۔کیونکہ ۔ ” اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کے بنانے کا ارادہ کرتا ہے۔ تو اس کا کام بس یہ ھے کہ اس سے حکم دے ” کن “( یعنی ہو جا) اور وہ ” فیکون ” ( ہو جاتی) ھے۔” ( یاسین۔ 82 ) ۔   اور
       3) اس انسان اول کا نام نامی ” آدم ” تھا۔
     لہذا اسی مناسبت سے دنیا مجھے ” آدمی ” اور ” خاکی ” کے نام سے جانتی ھے۔
   انسان کی پیدائش پہ عالم ملائکہ میں ایک کہرام مچ گیا۔ ” جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا۔کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں” (البقرہ۔ 30)۔  تو فرشتوں نے مودبآنہ اللہ کے حضور اپنی شکایت بھی درج کی۔ ” انہوں نے عرض کیا۔ کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں۔جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا۔اور خونریزیاں کرے گا۔آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لئے تقدیس تو ھم کر ہی رھے ہیں ” ( البقرہ۔ 30)۔۔ اللہ تعالیٰ جواب میں ارشادفرماتے ہیں۔
    ” میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے ” (البقرہ۔ 30) ۔
         خیر۔اللہ کے حضور فرشتوں کی ایک نہ چلی ۔ کیونکہ۔  ” اللہ تعالیٰ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ھے۔جو کچھ چاہتا ھے۔پیدا کرتا ھے ” ( شوریٰ۔ 49)۔
      خالق نے پیدایشی طور انسان کو بہت ساری نعمتوں اور احسانات سے نوازا۔لیکن تین چیزیں خصوصی طور عطاء کیں۔ جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز بناتی ہیں۔
    1) جذبہ محبت :- یہ وہ وصف ھے جو دیگر مخلوقات کے مقابلے انسان میں بہت ذیادہ نمایاں ھے۔ انسان کبھی خلق کی حیثیت سے خالق حقیقی سے تو کبھی مالک مجازی کی حیثیت سے اپنی ملک سے محبت کرتی ھے۔کبھی شفیق باپ کی صورت میں اپنے بچوں سے تو کبھی فرمانبردار اولاد کی صورت میں اپنے والدین سے محبت کرتا ھے ۔ کبھی محبت کا پیکر بن کر اپنی شریکِ حیات سے تو کبھی اطاعت شعار بیوی بن کر اپنے سرتاج سے محبت کرتی ھے۔اور بات جب ” ماں ” کی آتی ھے۔تو سبحان اللہ۔کیا کہوں ؟ سر تا پا محبت ہی محبت ۔ اگر میں ماں کو ہی محبت نام دوں تو شاید مبالغہ نہ ہوگا۔
      اخوت۔پیار ۔ملنساری ۔غمگساری ۔ جانثاری۔ ایثار۔ قربانی وغیرہ وغیرہ جیسے جذبات واحساسات اور اصطلاحات سب اسی ایک وصف محبت کا عکس اور پرتو ہیں۔یہ وہ شے ھے جو تسخیر عالم کی قدرت رکھتی ھے۔اسی لئے تو شاعر مشرق علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کیا تھا۔
یقیں محکم۔عمل پیہم۔محبت فاتح عالم۔
        انسانی تاریخ آج بھی اس حقیقت سے بھری پڑی ہیں کہ انسان جب جب بھی اس وصف کا خوگر ہوا۔جب بھی محبت سے سرشار ہو کر اپنے معاشرے کی بنیاد رکھی۔ تب تب زمانے میں امن و امان قائم ہوا۔لوگوں نے چین وسکون سے جینا سیکھا۔اور بھلا ایسا کیوں نہ ہو ۔جبکہ
دردِ دل کے  واسطے  پیدا   کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں۔
ہاں۔اسی لئے تو آدم ذادے کو انسان کہا جاتا ھے۔کیونکہ انسان کا مطلب ھے۔ ” محبت کرنے والا۔ انس رکھنے والا ” ۔
          2) خودی :- انسان روح و بدن کے علاوہ کچھ اور بھی ھے۔سچ کہوں تو انسان خدا کا راز ھے۔ضرب کلیم میں اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا۔
طلسمِ  بود  و  عدم   جس  کا        نام ھے آدم
خدا کا راز ھے قادر نہیں ھے جس پہ سخن۔
کہنے کو تو انسان میں” نفس ناطقہ” یا ” انا ” ھے۔ لیکن اگر اسی شے کو اخلاقیات۔اقدار اور آفاقی تعلیمات کی حصار میں باندھ کر پرورش کیا جائے اور پروان چڑھایا جائے۔ توپھر یہی شے اقبال کی ” خودی ” بن جاتی ھے۔یہی وہ چیز ھے جس کی بدولت انسان میں شعور ذات کے علاوہ شعور خالقِ کائنات بھی یایئ جاتی ھے۔اسی لئے اس میں الوہیت کا رنگ نظر آتا ھے۔اور جو شخص اس حقیقت سے آگاہ ہو جاۓ وہ خدا کی حقیقت سے بھی آگاہ ہو سکتا ھے۔لہذا اے انسان ذرا غور سے سن۔۔۔
تیری  زندگی  اسی  سے  تیری بندگی اسی سے
جو رہی  خودی تو شاہی۔نہ رہی تو   روسیاہی۔
     اسی لئے تو خودی کا حامل انسان بہت خوددار ہوتا ھے ۔ وہ ” سر ” تو دے سکتا ھے لیکن ایمان کا سودا نہیں کر سکتا۔اگر کسی انسان نے اپنی خودی کو مزید بلندی اور عروج دینا  ھو تو اسے اؤر دو چیزوں سے مزین اور مستحکم ہونا ہوگا۔۔
            1) علم
            2) عشق۔
سبحان اللہ پھر کیا کہنا۔
خودی  ہو علم سے  محکم   تو غیرت جبریل۴
اگر ہو عشق سے محکم توصور اسرافیل۴ ۔
               ۔۔۔   سلسلہ جاری۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Loading…

0

Kisan Drone granted interim approval, SOPs released

J&K’s debt pile grows to Rs 83,536 crore: CAG