in ,

سیب باغات میں یوریا کا چھڑکاؤ

طارق رسول، پلانٹ پیتھالوجسٹ ، سکاسٹ کشمیر

تعارف: سیب میں یوریا سپرے کا استعمال وادی کشمیر میں سیب کے کاشتکاروں میں ایک عام رواج بن گیا ہے۔ چونکہ سیب نہ صرف کاشتکاروں کے لیے ذریعہ معاش ہے ،بلکہ یہ کاشتکاروں کیلئے  ایک اچھی معیار زندگی بھی مہیا کرتا ہے اگر کاشتکار کے پاس صرف ایک ایکڑ کے باغات جتنی چھوٹی زمین ہی موجود ہو ، بشرطیکہ کاشتکار معیاری سیب پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔ سیب میں یوریا کی چھڑکاؤ کے مقاصد ، مقدار اور  چھڑکاو کے مناسب وقت کے حوالے سے مختلف غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ماضی میں ، مختلف مضامین مقامی اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں ، تاہم ، مضامین میں استعمال ہونے والی الفاظ بہت زیادہ تکنیکی تھی جو کاشتکار برادری کے لیے سمجھنا مشکل تھی۔ اس تحریر میں،   آسان الفاظ میں  ان غلط فہمیوں کو ناچیز نے دور کرنے کی کوشش کی ہے، امید ہےکاشتکار حضرات  اس سے مطلوبہ فوائد حاصل کرسکیں۔
یوریا کے چھڑکاؤ کا پس منظر:
کسی بھی کاشتکار کے لیے بیماریوں ، خاص طور پر سکیب اور الٹرنیاریا لیف بلاچ (ALB) کا انسدادِ مشکل کام  ہوتا ہے اور دنیا میں کہیں بھی بیماریوں سے پاک سیب پیدا کرنے کے لیے بڑی محنت کی ضرورت ہوتی ہے ، خاص طور پر  جب آب وہوا میں لگاتار بارشوں کے ساتھ ساتھ نسبتا ٹھنڈا درجہ حرارت (تقریبا 20 ڈگری سینٹی گریڈ آس پاس) موجود ہو۔ یاد رہے کہ ہمارے سیب میں پسٹسائڈ ادویات کے بھاری استعمال کی وجہ سے ، ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں پسٹسائڈ کی فی ہیکٹر کھپت میں جموں و کشمیر سرفہرست ہے۔ وادی کشمیر میں 450 کروڑ روپے سے زائد  پسٹسائڈ کا کاروبار ہے اور  یہ پسٹسائڈ زیادہ تر سیب کی بیماریوں اور کیڑوں کے انسداد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یورپ اور دوسرے ممالک میں  جہاں کے آب وہوا میں لگاتار بارشیں ہوتی ہیں، کاشتکاروں کو 20 سے زیادہ فنجسائڈس چھڑکنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بیماریوں کو باغات سے دور رکھا جاسکے۔  اس سال ہماری وادی میں بھی  بہت سے کاشتکاروں نے لگ بھگ 12 فنجسائڈز  کاچھڑکاو کیا کیونکہ موسم بہار اور موسم گرما کے مہینوں میں بارشیں اکثر ہوتی رہی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ فنجسائیڈز کے بغیر ہم بیماری سے پاک سیب پیدا نہیں کر سکتے ، یہاں تک کہ آدگنک سیب کی پیداوار کے نظام میں بھی کچھ فنجسائڈز جیسے Copper ، sulphur ، lime sulphur، بائک کاربونیٹ سالٹس وغیرہ کو سکیب اور ALB جیسی بیماریوں کو قابو کرنے کےخاطر ان کی چھڑکاو کی اجازت دی گئی ہے۔ تاہم، کاشتکار کو ان بیماریوں کو قابو کرنے کے لیے صرف فنجسائڈس پر ہی انحصار نہیں کر سکتے ، بلکہ کچھ اقدامات، جیسے باغ کی صفائی ،مناسب کٹائی اور مٹی کی زرخیزی کا انتظام بیماری کے تخموں(انوکولم) کی مقدار اور بیماری کی نشوونما کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سردیوں کے دوران ، سکیب جیسی بیماریوں کے تخم نہ صرف گرے ہوئے پتوں پر زندہ رہتے ہیں، بلکہ گرے ہوئے پتوں پر یہ جنسی  رپروڈکشن کے عمل سے بھی گزرتے ہیں تاکہ بالآخر  کافی مقدار میں تخم (ascospores) مارچ کے وسط میں سبز ٹپ کے دوران پہلے انفیکشن (پرائمری انفیکشن) کیلئے تیار ہوں ۔
یوریا کے چھڑکاؤ کا مقصد:
جیسا کہ ہم جانتے ہیں ، سیب کی بیماریاں خاص طور پر سکیب اور آلٹرنیریا گرے ہوئے پتوں پر اپنے آپ کو سردیوں میں زندہ رکھتے ہیں، اس لیے اگلے سال کے دوران بیماری کے امکانات کو کم کرنے کے لیے باغات سے پتے نکالنا انتہائی ضروری ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہر کاشتکار کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ باغ سے پتے ہٹا دے، حقیقت یہی ہےکہ ہر کاشتکار مختلف وجوہات کی بنا پر اپنے باغ سے پتے نہیں ہٹا سکتا۔ تو کیا ہمارے پاس ان بیماریوں (انوکولم) کو ختم کرنے کے لیے کوئی دوسرا آپشن باقی ہے جو گرے ہوئے پتوں میں زندہ رہتا ہے؟ یقینا ہمارے پاس روایتی باغات(Traditional orchards) کے نظام میں کم از کم دو آپشنز اور ہائی ڈینسٹی پلانٹنگ سسٹم میں ایک آپشن موجود ہے۔ درختوں پر یوریا کا چھڑکاؤ پتے کے گرنے سے پہلے یا گرے ہوئے پتّوں پر نومبر یا مارچ میں کیا جاسکتا ہے۔ یوریا جو نائٹروجن کا ایک اچھا ذریعہ (%46) ہوتا ہے نہ صرف اس لیے کاشتکاروں کی پہلی پسند ہے کہ یہ سستا ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ اسکو تقریباً تمام پودوں کی قسمیں پتوں کے زریعہ بآسانی جذب کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ نائٹروجن ایک ایسا میکرونیوٹرینٹ ہے  جو پودوں کو اپنی نشوونما کیلئے زیادہ مقدار میں چاہےہوتی ہے۔ لیکن ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہاں موسم خزاں میں ہم دراصل یوریا کو نشوونما کے لیے غذائی سپلیمنٹ کے طور پر استعمال نہیں کرتے بلکہ اس کا مقصد گرنے والے پتوں میں C: N کا تناسب کم کرنا ہے،  کیونکہ پتیوں میں نائٹروجن کی مقدار زیادہ ہونے کی صورت میں، جراثیم کے لیے اس کا ڈکمپوز کرنام نسبتاً آسان ہوتاہے۔ اعلی معیار کے تحقیقی مطالعات میں بتایا گیا ہے کہ یوریا درختوں پر پتیوں کے گرنے سے پہلے یا موسم خزاں یا موسم بہار میں کلی پھوٹنے سے پہلے زمین پر موجود پتوں پر چھڑکاو کرنے سےلگاتا 50 سے 96 فیصد  تک بیماریوں کے جراثیم کو ختم کرتا ہے۔  مزید یہ کہ 5 فیصد یا اس سے کم یوریا کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ یہ بیماری کے تخم کیلیے زہریلا ہوتا ہے۔ دوسرا آپشن  جسکی میں روایتی سیب باغات کے بارے میں بات کر رہا تھا  وہ یہ ہے۔ کہ بھیڑوں کو اگر باغات میں چرنے کیلئے چھوڑیں، تو وہ نہ صرف بیماریوں والے پتے کھائیں گے بلکہ وہ باغات میں اعلی معیار کے سیب پیدا کرنے کے لیے درکار  قدرتی کھاد بھی مہیا کریں گے۔ مزید چوہوں کی نقل و حرکت میں بھی خلل ڈالیں گی ، شاید وہ انہیں چرنے والی باغات سے باہر جانے پر مجبور کر دیں۔
یوریا چھڑکنے کے ثانوی فوائد:
ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یوریا کی پوسٹ ہارویسٹ ایپلی کیشن کا مقصد بنیادی طور پر سیب کی بیماریوں کا انسداد کرنا ہے،  نہ کہ اسکو بطور خوراک فراہم کرنے کا مقصد ہوتا ہے۔ درختوں کے پودوں پر براہ راست یوریا چھڑکنے کے کچھ ثانوی فوائد بھی ضرور ہیں اور یہ والےفوائد کاشتکاروں کو واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔ جب درختوں میں نائٹروجن کی کمی ہوتی ہے تو یوریا کا استعمال انہیں نائٹروجن سے مالا مال کرتا ہے جو کہ کئی طریقوں سے خاص طور پر اگلے سال کے فروٹ سیٹ اور معیاری فروٹ بنانے میں بھی مدد کرتا ہے۔ مزید برآں ، تنے اور شاخوں کے جلد پر لگنے والے سطحی بیماریاں بھی یوریا اسپرے سے ٹھیک ہوجاتی ہیں اور باغات کاشتکاروں کو بہت صاف  ستھرے نظر آتے ہیں۔
یوریا کی مقدار:
ہمارے کاشتکاروں میں یوریا سپرے کی مقدار کے بارے میں الجھن ہے۔ بیشتر ممالک میں کسان اپنے باغات میں زرعی کیمیکل اور سپرے سولیشن (پانی) دونوں کی ایک خاص مقدار چھڑکتے ہیں ، تاہم وادی میں ایسا طریقہ اپنایا نہیں جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ، یو ایس اے کی کچھ فارم یونیورسٹیاں یوریا کو40 پاؤنڈ/100 گیلن پانی (18.14 کلو گرام/378 لیٹر پانی)  صرف ایک ایکڑ (8 کنال)  باغات میں چھڑکنے کی ہدایت دیتا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں ہدایات صرف یہ ہوتی ہے کہ سو لیٹر پانی میں کتنی مقدار میں ادویات ملائی جائیں۔ اس وجہ سے اور جدید ٹکنالوجی کے فقدان سےہمارے سیب کے درخت دوسرے ممالک کے درختوں سے دس گنا زیادہ زرعی کیمیکل حاصل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اکثر یہ نہیں دیکھنا چاہئےکہ دوسرے ملکوں میں کس مقدار میں ادویات استعمال ہوتی ہیں اور ہم بھی بغیر کسی ماہرانہ رائے اس  مقدار کو استعمال کریں۔  یہ لازم ہے کہ زرعی کیمیکلز کی مقدار کے بارے میں احتیاط  سےکام لینا چاہیے۔ باغ کے فرش پر گندگی کے پتے پر ، یوریا کو  زیادہ مقدار میں چھڑکا جاسکتا ہے ، لیکن 5 فیصد (5 کلو گرام/100 لیٹر پانی) کی سفارش  زمیندار کے لئے سستا بھی ہے اور موثر بھی۔  اگرچہ 5فیصد یوریاسیدھے پیڑوں پر چھڑکنے کی سفارش کئ ممالک میں دی گئی ہے، تاہم ہم نے جنوبی کشمیر کے مختلف مقامات پر بہت بار مشاہدہ کیا ہے کہ 5 فیصد  سے کلیوں پر برا اثر پڑتا ہے اور اگلے سال متاثرہ کاشتکاروں کے باغات میں فصل میں نقصانات بھی ہوتے ہیں ہے۔ گو کہ اے اے آر سی پہنوشوپیان (SKUAST-K) میں ہم نے  سیب کےچار اقسام میں 5 فیصد یوریا سپرے استعمال کیا تھالیکن وہاں پر کسی قسم کی کوئی منفی اثر (phytotoxicity) نوٹس نہیں کی۔ درحقیقت یوریا کے اچھے اور برے اثرات پودوں میں موجودنائٹروجن کی حیثیت پر منحصر ہے۔ پودوں میں نائٹروجن کی زیادہ مقدار کا مطلب ہے کہ یوریا کے 5 فیصد استعمال سے نقصان کے زیادہ امکانات ہیں۔ ان ہی  برے اثرات(بڈ ڈیمج) کی وجہ سے پچھلے سال ، ہماری یونیورسٹی (SKUAST-K Shalimar) نے سیب کے کاشتکاروں کے لیے یوریا کے استعمال کی سفارش 3-4 فیصد کی تھی۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ اگر باغ میں ٹہنیاں تیزی سے بڑھتی ہیں  (جو پودوں میں نائٹروجن کی زیادہ سطح کی نشاندہی کرتی ہے) ،  تو کاشتکار 3 فیصد کو ترجیح دے سکتے ہیں ورنہ 4 فیصد کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہر کاشتکار کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ پتی کی جانچ کرے ، ورنہ اس سے یوریا کے مقدار کی تعین  سائینسی بنیاد پرہوتا۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یوریا کی کم مقدار زیادہ مقدار کی طرح  پتّوں کو سڑنے اور سکیب کو ختم کرنے میں موثر نہیں ہو سکتی۔
کیا نائٹروجن پتیوں کو گراتا ہے؟
اس بات میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ  یوریا چھڑکاو کرنے سے سیب کے پتے  جلدی جھڑ جاتے ہیں ۔ کچھ تحقیقات میں یوریا کو چیلیٹڈ کاپر ( CU-edta) یا زنک سلفیٹ کے ساتھ ملا کر ڈیفولیشن کو فروغ دینے کی بات کہی گئی ہے۔ تاہم انفرادی استعمال سے یوریا سیب کے پتوں کو جھڑنے میں مدد نہیں دیتا ہے ۔
سپرے کا وقت:
کاشتکاروں میں یوریا کے استعمال کے وقت کے بارے میں بہت الجھن ہے۔ چونکہ بہت سے کاشت کاروں کا خیال ہے کہ یوریا پتیوں کو جھڑنے میں مددکرتا ہے ، اس لیے وہ پھل کے اتارنے کے فوراً بعد یوریا کا چھڑکاؤ شروع کر دیتے ہیں۔ ہم نے اکثر مشاہدہ کیا ہے کہ اکتوبر کے اوائل یا وسط میں یوریا کی استعمال سے پودوں کو مذید اگنے میں فروغ دیتی ہے اور پودوں میں سختی پیدا کرنے میں تاخیر کرتی ہے۔ یوریا چھڑکنے کا بہترین وقت نومبر کے شروع میں قدرتی طور پر پتے گرنے کا عمل شروع ہونے کےساتھ ہی ہے۔ کاشت کاروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ پتیوں میں غذائی اجزاء کی وافرمقدار موجود ہوتی ہے اور یہ غذائی اجزاء قدرتی طور پر پتے کے گرنے سے پہلے درختوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ یوریا کا استعمال موسم بہار میں باغ کے فرش پر موجود پتوں پر بھی کیا جا سکتا ہے ، تاہم یہ یوریا کے استعمال کے ثانوی فوائد نہیں دے گا۔
حاصل کلام:(Conclusion)
باغات میں سیب کے پتوں کو جمع کرکے اگر باغات سے دور کیا جائے،  تو اس سے لازماً اگلے سال بیماریوں میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور اس صورت میں یوریا سپرےبغرض بیماریوں کے انسداد کی ضرورت باقی نہیں رہتی یے۔
روایتی باغات میں گرے ہوئے پتوں  پر بھیڑوں کو چرانے سے اگلے سال کے دوران بیماریوں کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
سیب میں قدرتی طور پر پتیوں کا گرنا شروع ہونے کے ساتھ ہی یوریا @ 3 سے 4 فیصد (3-4 کلو گرام/100 لیٹر پانی) چھڑکناچاہیے۔
یوریا نومبر میں خزاں کے دوران یا مارچ میں کلیوں کے پھوٹنے سے پہلے باغ کے فرش پر 5فیصد مقدار میں (5 کلو گرام/100 لیٹر پانی) چھڑک سکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Loading…

0

Non-local workforce part of Kashmir’s industrial growth story: FCIK

PHDCCI J&K chapter welcomes Dubai govt agreement