in ,

کشمیر یونیورسٹی کے تقسیمِ اسناد کے جلسے سے صدرِ جمہوریۂ ہند رام ناتھ کووند کا خطاب

نئی دلّی ،27 / مجھے یہاں عظیم تاریخی و ثقافتی اہمیت کی حامل سرزمین پر آپ کے درمیان آکر بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے ۔ اِسے ’ رِشی وئیر ‘ یا سنتوں کی سر زمین کہا جاتا ہے ، جس نے دور دراز سے روحانی سکون حاصل کرنے والوں کو راغب کیا ہے ۔ مجھے اِس سر زمین پر آکر بہت تسکین محسوس ہو رہی ہے ، جو نہ صرف عقل و دانش کا گہوارہ ہے ، بلکہ بے مثال قدرتی خوبصورتی کی بھی سر زمین ہے ۔

خواتین و حضرات ،

سب سے پہلے میں کشمیر یونیورسٹی کے نو جوان طلباء کو مبارکباد دینا چاہوں گا ، جنہیں اِس جلسے میں اسناد سے نوازا جائے گا ۔ پوشتے مبارک ۔

مجھے بتایا گیا ہے کہ آج تقریباً 3 لاکھ طلباء ڈگریاں حاصل کریں گے ۔ میں ، اِس تعداد سے بہت متاثر ہوا ہے ۔ پچھلے 8 سال کے دوران 2.5 لاکھ بیچلرس کے علاوہ، 1000 سے زیادہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری فراہم کرکے یونیورسٹی نے شاندار ترقی حاصل کی ہے ۔ میں ، آپ سب کو بتانا چاہوں گا کہ آموزش کے لئے آپ کی تڑپ اور علم میں آپ کا عقیدہ یقیناً تحریک دلانے والا ہے ۔ اس کا سہرا کشمیر یونیورسٹی کے ٹیچروں اور انتظامیہ کو بھی جاتا ہے ۔ یہ کامیابیاں تعجب خیز نہیں ہیں کیونکہ کشمیر مثالی شاردا پیٹھ کے بعد ، جو عہدِ قدیم میں آموزش کا معروف مرکز تھا ، ہمیشہ سے ’ شاردا دیش ‘ کے طور پر جانا جاتا ہے ۔

خواتین طلباء کی کامیابی بھی اتنی ہی تحریک دلانے والی ہے ۔ آج ڈگری حاصل کرنے والے طلباء میں تقریباً آدھی طالبات ہیں ۔ صرف یہی نہیں ، گولڈ میڈل جیتنے والوں میں بھی 70 فی صد خواتین ہیں ۔ یہ معاملہ صرف اطمینان بخش ہی نہیں ، بلکہ ہمارے لئے فخر کی بات ہے کہ ہماری بیٹیاں اُسی سطح پر کام کرنے کے لئے تیار ہیں ، بلکہ اس سطح سے بھی بہتر کام کرنے کے لئے تیار ہیں ، جس سطح پر ہمارے بیٹے کام کر رہے ہیں ۔ برابری اور اہلیت کے اِسی اعتماد کو تمام خواتین میں پرورش دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم کامیابی کے ساتھ ایک نیا بھارت – ایک ایسا بھارت ، جو ملکوں کی برادری میں سب سے آگے ہو ، تعمیر کر سکیں گے ۔ اس اعلیٰ مقام کے لئے ہمارے انسانی وسائل اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سب سے اہم ہے ۔

خواتین و حضرات ،

سنگِ بنیاد ، جیسا کہ آپ جانتے ہیں ، عمارت کی بنیاد کا پہلا پتھر ہوتا ہے ۔ اس معاملے میں تعلیم ہماری قوم کی تعمیر کا پہلا پتھر ہے ۔ جدید تعلیم پر عمل پیرا ہونے کے لئے ضرورت محسوس کی گئی ہے ، جو ہمارے ملک کی تعمیر کے لئے 21 ویں صدی میں چیلنجوں کا جواب دینے کے لئے سب سے بہتر اقدام ہے ۔ اس ویژن کے ساتھ پچھلے سال ایک نئی قومی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا گیا ۔

مجھے اِس معاملے پر سبھی ریاستوں کے گورنروں ، مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے لیفٹننٹ گورنروں اور سینٹرل یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے ساتھ ورچوئل موڈ میں تبادلۂ خیال کا موقع ملا ہے ۔ میں نے پچھلے ستمبر میں جموں و کشمیر میں تعلیمی پالیسی کے نفاذ پر ورچوئل موڈ میں ایک کانفرنس سے خطاب بھی کیا تھا ۔

مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کشمیر یونیورسٹی نے نئی پالیسی کی کچھ خصوصیات کو پہلے ہی نافذ کرنا شروع کر دیا ہے ۔ پالیسی کو وقت پر نافذ کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کے علاوہ ، اِس پالیسی کے مقاصد کے حصول کے لئے کئی تعلیمی کورسوں کو دوبارہ مرتب کیا گیا ہے ۔

اس یونیورسٹی کی ایک اور اہم خصوصیت تحقیق پر زور ہے ، جو نئی پالیسی کا ایک اہم عنصر ہے ۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ کشمیر یونیورسٹی بھارت کی، اُن چند یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے ، جہاں بین مضامینی تحقیق اور اختراعات پر ایک مخصوص سینٹر قائم کیا گیا ہے ۔ اس سے نو جوان سائنس دانوں کو مختلف مضامین میں فیلو شپ میں مدد ملے گی ۔

کشمیر یونیورسٹی نے بہت زیادہ اہمیت کے حامل دو مرکز قائم کرکے ایک اور بڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔ اس میں ایک مرکز گلیشیئر سے متعلق علم اور دوسرا ہمالیا ئی نباتاتی دستاویز تیار کرنے اور نباتاتی تحفظ کے لئے مخصوص ہے ۔ اس کے علاوہ ، یہاں نیشنل ہمالین آئس کور لیبا ریٹری بھی موجود ہے ۔ آب و ہوا میں تبدیلی ، جیسا کہ آپ جانتے ہیں ، اس صدی میں انسان کے سامنے سب سے اہم چیلنج ہے ۔ عالمی حرارت ہر جگہ اثرات چھوڑ رہی ہے لیکن سب سے زیادہ نازک ماحولیاتی نظام ہمالیا کا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ یہ دو مراکز اور لیبا ریٹری کشمیر کو آب و ہوا میں تبدیلی سے نمٹنے میں دنیا کی قیادت کرنے میں مدد دیں گے ۔ میں نو جوانوں پر زور دینا چاہوں گا کہ وہ اِن پلیٹ فارمس کے ذریعے حاصل کردہ مواقع سے فائدہ اٹھائیں۔

نئی تعلیمی پالیسی کے مقاصد میں ایک اہم مقصد پیشہ ورانہ تعلیم پر زور دینا ہے ۔ اس شعبے میں بھی کشمیر یونیورسٹی نے ہنر مندی کے فروغ کے لئے سرٹیفکیٹ اور ڈگری سطح کے کورس شروع کرکے کامیابی حاصل کی ہے ۔ ڈائریکٹوریٹ آف لائف لانگ لرننگ اور دین دیال اپادھیائے کوشل کیندر کے ذریعے آٹو موبائل ، ٹیکسٹائل ، زراعت اور باغبانی جیسے مختلف شعبوں میں آموزش فراہم کی جا رہی ہے ۔

ان سب سے زیادہ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ آپ کی یونیورسٹی نے وباء کے دوران قابلِ ستائش اقدامات کئے ہیں ۔ پوری دنیا ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے ، جس نے زندگی کے ہر شعبے پر اثر ڈالا ہے اور تعلیم بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے ۔ خوش قسمتی سے ٹیکنا لوجی نے ، اِس کا حل فراہم کیا ہے ۔ پورے ہندوستان میں اسکول ، کالج اور یونیورسٹیاں آن لائن طریقے سے تعلیم کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ پچھلے سال وباء کے آغاز کے ساتھ ہی کشمیر یونیورسٹی نے اپنے طلباء کو آن لائن طریقے سے تعلیم فراہم کرنی شروع کر دی تھی ۔ اس کے علاوہ ، انتطامیہ نے اپنے کیمپس میں ہی قرنطینہ کی سہولیات فراہم کیں ۔ ا س سے سماج کے تئیں تعلیم کے علاوہ یونیورسٹی کے بڑے تعاون کا اظہار ہوتا ہے ۔

خواتین و حضرات ،

کشمیر ایک ایسا مقام ہے ، جس نے روایتوں سے الگ کام کیا ہے ۔ بہت سے شاعروں نے ، اِسے دنیا کی جنت قرار دیتے ہوئے ، اِس کی خوبصورتی بیان کی ہے ۔ قدرتی کی یہی خوبصورتی ، اِس مقام کو مختلف نظریات اور احساسات کا مرکز بناتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے تعاون کا ذکر کئے بغیر ہندوستانی فلسفے کی تاریخ تحریر کرنا نا ممکن ہے ۔ یہ خطہ مختلف فلسفوں کی نشو و نما کے لئے بہت ساز گار ہے ۔ یہ وہ جگہ ہے ، جہاں عظیم فلسفی ابھینو گپتا نے جمالیات اور بھگوان کو پانے کے طریقوں پر کتابیں تحریر کیں ۔ یہیں ہندو ازم اور بودھ ازم نے فروغ پایا اور اس کے بعد اسلام اور سِکھ ازم بھی یہاں پھلا پھولا ۔

کشمیر مختلف ثقافتوں کے ملاپ کی بھی جگہ ہے ۔ عہدِ وسطیٰ میں یہ لال ڈیڈ تھے ، جنہوں نے مختلف روحانی روایات کو یکجا کیا ۔ لالیشوری کی تصنیفات میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح کشمیر فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور پُر امن بقائے باہم کا مندر کہلایا ہے ۔ تقریباً سبھی مذاہب نے ، جو اس سرزمین پر ابھرے ، اس سر زمین کو اپنایا ۔ اس سر زمین منفرد خصوصیت کشمیریت ہے ، جو برادریوں کے درمیان رواداری اور باہمی قبولیت کی ہمت افزائی کرتی ہے ۔

خواتین و حضرات ،

میں ، اِس موقع پر کشمیر کی نو جوان نسل پر زور دیتا ہوں کہ وہ اپنی مالا مال وراثت سے سبق حاصل کریں ۔ اس کے روحانی اور ثقافتی اثرات کے نشان پورے بھارت میں موجود ہیں ۔

یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ پُر امن بقائے باہم کی اِس روایت کو توڑا گیا ۔ تشدد ، جو کشمیریت کاکبھی بھی حصہ نہیں رہا ، روز مرہ کی حقیقت بن گیا ۔ یہ کشمیری کلچر سے میل نہیں کھاتا اور اسے ایک عارضی مرض یا وائرس کہا جا سکتا ہے ، جو جسم پر حملہ کرتا ہے اور اس کے علاج کی ضرورت ہوتی ہے اور اب ایک نئی شروعات ہوئی ہے ، جس نے ، اِس سر زمین کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر سے حاصل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔

میرا اعتماد ہے کہ جمہوریت میں تمام اختلافات دور کرنے اور شہریوں کے لئے بہترین وسائل حاصل کرنے کی قوت ہوتی ہے ۔ خوشی کی بات ہےکہ کشمیر پہلے ہی اس ویژن کو سمجھ رہا ہے ۔ جمہوریت ، آپ کو اپنا مستقبل تعمیر کرنے اور ایک پُر امن اور خوشحال مستقبل کی تعمیر کی ضمانت دیتی ہے ۔ نو جوانوں اور خاص طور سے خواتین کا اِس میں بڑا ہاتھ ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ کشمیر کی تعمیرِ نو کے اِس موقع کو اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے ۔

ایسے میں ، جب کہ کشمیر کا ایک نیا باب شروع ہوا ہے ، نئے امکانات بھی کھلنے لگے ہیں ۔ پورا ہندوستان فخر اور ستائش کے ساتھ آپ کو دیکھ رہا ہے ۔ کشمیری نو جوان سول سروسز امتحانات سے لے کر کھیل کود اور صنعت کاری سمیت مختلف شعبوں میں نئی اونچائیاں طے کر رہے ہیں ۔

پچھلے سال ستمبر میں نئی تعلیمی پالیسی پر ایک تبادلۂ خیال کے دوران میں نے اپنے خوابوں کا ذکر کیا ۔ میں ، کشمیر کو جنتِ ارضی کے طور پر دیکھنا چاہتا ہوں ۔ میں ، اِس خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لئے پوری طرح جموں و کشمیر کی نو جوان نسل پر بھروسہ کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ یہ جلد ہی حقیقت میں تبدیل ہو گا ۔ کشمیر ، ہندوستان کے تاج کی حیثیت سے اپنا جائز مقام حاصل کرے گا ۔

ایک بار پھر ، میں تمام طلباء اور اُن کے اساتذہ کو مبارکباد دیتا ہوں اور اُن کے آئندہ کے سفر کے لئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں ۔

شکریہ ۔ جے ہند !

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Loading…

0

J&K to macadamize 8,000 km of roads in 2021-22; yet most Srinagar roads in a mess

Saudi Arabia imposes 3-year travel ban for visiting “Red List” countries, including India