in ,

پھلوں اور سبزیوں کیلئے سرکاری نرخ نامہ

بے سود عمل

زراعت ٹائمز ڈیسک
کشمیر کے محکمہ خوراک ، شہری رسدات و امور صارفین نے 13 نومبر 2018 کو ایک حکم نامہ جاری کیا جس کے ذریعے شہر سرینگر میں سبزیوں اور پھلوں کے پرچون نرخ متعین کئے گئے ۔ اس حکم نامے کی خاصی تشہیر ہوئی اور محکمہ ھٰذا نے عوام
الناس سے اس نرخ نامے کے اطلاق کیلئے تعاون کی اپیل کی ۔
حالانکہ یہ نرخ نامہ ایک مہینے کی مدت کیلئے لاگو کیا گیا ہے ، البتہ اس نرخ نامے کی معقولیت کے حوالے سے کئی سوالات
ابھرتے ہیں ۔
سوال نمبر 1۔ اس نرخ نامے کو اجراہ کرنے کی ضرورت کہاں سے پیدا ہوئی ؟
سوال نمبر 2 ۔ کیا یہ نرخ نامہ اس لئے جاری کیا گیا کہ عام اشیاءکی قیمتوں میں زیادہ اضافہ ہونے کی وجہ سے صارفین میں تذبذب پیدا ہوگیا تھا ؟
سوال نمبر 3 ۔ کیا یہ نرخ نامہ محکمہ امور صارفین کی طرف سے مارکیٹ میں پھلوں اور سبزیوں کی نرخوں میں بے ضابطگیاں پانے کے بعد لاگو کیا گیا ؟
سوال نمبر 4 ۔ کیا اس نرخ نامے کو قائم کرنے سے پہلے مارکیٹ میں اشیاءضروریہ کی قیمتوں کا تجزیہ کیا گیا ؟
سوال نمبر 5 ۔ کیا دوسرے محکموں جن میں محکمہ زراعت ، باغبانی اور اقتصادیات شامل ہے ، اس فیصلے کو لینے سے پہلے کی آرا طلب کی گئی ؟
سوال نمبر 6۔ کیا یہ نرخ نامہ حقیقی طور پر واجب الاطلاق ہے ؟
اس ہفتہ زراعت ٹائمز نے ان تمام سوالات کے جوابات جاننے کیلئے محکمہ امور صارفین کے افسروں ، عام کسانوں ، کشمیر کی سرکردہ منڈیوں کے بیوپاریوں اور اقتصادی ماہرین سے بات چیت کی ۔
اس معاملے پر باریک بینی سے تجزیہ کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس فیصلے کو لینے سے قبل کچھ بنیادی باتوں کا خیال رکھاجانا لازمی تھا ۔ مثال کے طور پر پہلا سوال جو اس بارے میںابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ایسا نرخ نامہ جو مارکیٹ کی سپلائی اور مانگ کے تقاضوں کو پوری طرح سے ملحوض نظر نہیں رکھتی واقعی طور لاگو کیا جاسکتا ہے ؟ کیا ایسا حکم نامہ صادر کرنے سے پہلے کسانوں اور محکمہ زراعت کو خاطر میں نہیں لےا جانا چاہئے تھا ؟
ناظم زراعت کشمیر اعجاز اندرابی صاحب نے زراعت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے محکمے کے ساتھ یہ ریٹ لسٹ اجراہ کرنے سے پہلے گفت و شنید نہیں کی گئی ۔ اندرابی صاحب کا مزید یہ کہنا ہے کہ حقیقت میں ایسے لسٹ تیار کرنے کی بنیادی ذمہ داری محکمہ زراعت کی ہونی چاہئے ، وہ اس لئے کہ یہ محکمہ زراعت ہی ہے جو کسانوں کو سبزیاں اور پھل اگانے کے ضمن میں درکار انپٹ قیمتوں کا صحیح اندازہ لگا سکتی ہے ۔
واضح رہے اس نرخ نامے کے مطابق کشمیر میں اگائی جانے والی سبزیوں اور باہر سے در آمد کی جانے والی سبزیوں کے بیچ کوئی امتیاز نہیں کیا گیا ہے جس کے بارے میں ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ یہ ایک صحیح طریقہ نہیں ہے کیونکہ کشمیر میں اگائی جانے والی سبزیوں اور باہر سے لائے جانے والی سبزیوں کے قیمتوں کے تقاضے مختلف ہیں ۔
زراعت ٹائمز کی کئی ٹیموں نے 14 اور 15 نومبر کو سرینگر کے مختلف بازاروں میں سروے کرکے جب یہ معلوم کرنا چاہا کہ آیا یہ نرخ نامہ زمینی سطح پر واقعی لاگو ہوچکا ہے تو معلوم ہوا کہ اس نرخ نامے کے بارے میں نہ تو خریداروں کو کچھ خاص علمیت تھی اور نا ہی سبزیاں اور پھل بےچنے والوں نے اس نرخ نامے کو لاگو کرنے کے بارے میں کوئی دلچسپی دکھائی ۔
بشیر احمد بشیر جو ”آل کشمیر ویلی فروٹ گروﺅرس و ڈیلرس یونین “کے چیئرمین ہیں ، نے زراعت ٹائمز کو بتایا کہ یہ نرخ نامہ جاری کرنے سے پہلے ان کی یونین کے ساتھ صلاح و مشورہ نہیں کیا گیا ۔ بشیر صاحب نے بتایا کہ یہ واقعی ایک افسوسناک امر ہے کہ کشمیر کے کسانوں کو ، جو سبزیاں اور پھل اگاتے ہیں ، ایسا فےصلہ کرنے سے پہلے خاطر میں نہیں لیا گیا ہے ۔ بشیر صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے نرخ ناموں کا زمینی سطح پر اطلاق اس لئے نہیں ہوپاتا کیونکہ ایسے اقدام زمینی حقائق سے پرے ہوتے ہیں ۔
زراعت ٹائمز نے جب سرینگر کے کئی مارکیٹوں میں سبزیاں اور پھل بیچنے کی پرچون قیمتوں کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ کچھ سبزیاں در حقیقت اس نئے نرخ نامے میں تعین قیمت سے کم قیمت میں ہی بیچی جارہی تھیں ۔ مثال کے طور پر اگرچہ ساگ کیلئے سرکاری نرخ نامے میں 40 روپے فی کلو کی قیمت تعین کی گئی ہے پچھلے ہفتے ساگ سرینگر کے مارکیٹ میں 30 روپے فی کلو کے حساب سے مارکیٹ میں دستیاب تھا ۔
عرفان حبیب ، جو کہ ایک اقتصادی ماہر ہیں ، کے خیال کے مطابق ایسا اس لئے ہوتا ہے کیونکہ مارکیٹ میں پھلوں اور سبزیوں کی قیمت ان کے مطالبے اور فراہمی کی بنیادوں پر ہوتا ہے ۔ عرفان صاحب کا کہنا ہے کہ ایسے نرخ نامے زمینی سطح پر اس لئے کام نہیں کر پاتے کیونکہ پھلوں اور سبزیوں کی فراہمی میں یکسوئی نہیں ہوتی اور نا ہی خریداروں میں ان کی مانگ کو لے کر میں کوئی یکسوئی ہوتی ہے ۔
دوسری جانب محکمہ امور صارفین کے ڈپٹی ڈائریکٹر سید شہنواز بخاری نے زراعت ٹائمز کو بتایا کہ حالانکہ ان کا محکمہ ان تمام حقائق سے بخوبی واقف ہے البتہ ان کی کوشش یہ رہتی ہے کہ عام لوگوں کے پاس یہ ضروری اشےاءمناسب اور معقول قیمت میں دستیاب رہے ۔ بخاری صاحب کے مطابق بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسانوں کو ان کی پیداوار کی معقول قیمت نہیں ملتی اور اس وجہ سے ان کے محکمے کو ایسے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں تاکہ نہ صرف کسانوں کو ان کے پیداوار کی معقول قیمت ملے بلکہ عام صارفین کو بھی غیر مناسب قیمتوں کا بوجھ نہ اٹھانا پڑے ۔
وادی کشمیر میں سبزیوں کو اگانے کے کسانوں کی ایسو سی ایشن ”ویلی ویجی ٹیبل گروﺅرس ایسو سی ایشن “ کے صدر بشیر احمد کا کہنا ہے کہ ایسے نرخ ناموں کو طے کرنے سے پہلے کسانوں کے ساتھ گفت و شنید کرنا کافی اہم ہے ۔ بشیر صاحب کے مطابق ان کی ایسو سی ایشن کو ایسا نرخ نامہ صادر کرنے سے پہلے مستقبل میں خاطر میں ضرور لینا چاہئے ۔
دوسری جانب اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سرکار کی جانب سے پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں اس طرح سے وضح کی گئیں تو مستقبل میں زیادہ سے زیادہ زرعی زمین غیر زرعی کاموں میں تبدیل ہوسکتی ہے ۔ ان اقتصادی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگرچہ کشمیر کے کسانوں کو ان کے زرعی پیداوار کی معقول قیمت حاصل نہیں ہوتی تو وہ اپنی زمینوں کو بےچ کر انہیں غیر زرعی کاموں کے استعمال کیلئے دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے ۔ ان ماہرین کا مزید یہ کہنا ہے کہ پھلوں اور سبزیوں کی قیمت ان کی طلب اور رسد کے بنیادی ضابطوں کے ذریعے ہی ہونی چاہئے اور تب جاکر کشمیر کے کسانوں کے مفادات کو نہ صرف بچایا جاسکتا ہے بلکہ کشمیر میں زرعی زمین کی بے تحاشہ فروخت اور غیر زرعی کاموں کے استعمال پر روک لگائی جاسکتی ہے ۔
دریں اثناءسبزی منڈی بٹہ مالو کے صدر عبدالحمید نے زراعت ٹائمز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ پھلوں اور سبزیوں
کی قیمت مسلسل نہیں رہتی اس لئے ایسے نرخ ناموں کا شائد ہی کوئی مقصد ہے ۔ حمےد صاحب نے مزید کہا کہ بٹہ مالو کی منڈی میں آئے دن سبزیوں کی قیمت تبدیل ہوتی رہتی ہے اور ان پر کوئی خاص نرخ لاگو کرنا بے سود ہے ۔ عبدالحمید صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ بالآخر جب سبزیوں کی قیمتیں طے ہوتی ہیں اس میں کسانوں اور کمیشن ایجنٹوں کے مفادات کو ملحوض نظر رکھا جاتا ہے ۔
زراعت ٹائمز نے دوسری ریاستوں میں پھلوں اور سبزیوں کے نرخ نامے طے کرنے کے بارے میں جو ضابطہ ہے قائم ہے کو سمجھنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ ان اشیاءکے نرخوں کو طے کرنے کا بنیادی مقصد افراط زر کے معاملات کو طے کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ اور اس عمل میں نہ صرف امور صارفین کے محکمے بلکہ اقتصادیات کے ماہرین اور کسانوں کے نمائندے بھی شامل ہوتے ہیں ۔ البتہ اس پورے عمل میں طلب اور رسد کے تقاضوں کو پوری طرح سے ملحوض نظر رکھا جاتا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ اس عمل کی رو سے اس بات کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ کسانوں کے مفادات پر اس پورے عمل سے کوئی منفی
اثر نا پڑے ۔
زراعت ٹائمز کا ماننا ہے کہ کشمیر میں ایسا فیصلہ صادر کرنے سے پہلے متعلقہ محکموں ، منڈیوں کے زعماء، اقتصادی ماہرین
، کسانوں کی انجمنوں اور عام لوگوں کی سیول سوسائٹی انجمنوں کے بیچ بحث و مباحثہ ہونا ایک مثبت عمل ہوگا ۔ ایسے بحث و مباحثے سے نہ صرف پھلوں اور سبزیوں کی طلب اور رسد کے تقاضات کو ملحوض نظر رکھا جانا لازمی ہوگا بلکہ کسانوں اور زرعی شعبے کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا بھی ایک خاص مقصد ہونا چاہئے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Loading…

0

Wetlands are lungs of Valley; not dumping grounds: Div Com

زنسکار !دنیا کی بلندی پر زراعت کا کار